Tahzeeb Abid

Add To collaction

غزل تحریری مقابلہ

کچھ بھی ہو جائے پر ایسا نہیں ہونے دیتے 
 عشق کو ہم کبھی رسوا نہیں ہونے دیتے 

تم تو گلشن کو بھی کر دیتے ہو ویران! میاں 
ہم تو صحرا کو بھی صحرا نہیں ہونے دیتے 

 زخم یہ گہرا نہیں  تھا کہ جو بھرتا ہی نہیں 
یار ہم خود اسے اچھا نہیں ہونے دیتے

 ان غموں کو ہے کچھ اس طرح عقیدت مجھسے
 مجھکو اے دوست یہ  تنہا نہیں ہونے دیتے 

ہم کماتے ہیں مگر ہاۓ ضرورت کے پہاڑ 
جمع کوئی بھی اثاثہ نہیں ہونے دیتے

بیچ دیں اپنی غزل  فن کی تجارت کر لیں
ہم ادب کا یوں تماشا نہیں ہونے دیتے 

ہم تھے پردیس سدا ورنہ جگر کے ٹکڑے 
جیسا تو ہے تجھے ویسا نہیں ہونے دیتے 

ایک تو خود ہی سدھرنے سے گریزاں ہوں میں 
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے

قتل ہو جاتے ہیں ہم شوق سے لیکن عابد 
اپنے ایمان کا سودا نہیں ہونے دیتے 
سید تہزیب عابد 
َ

   9
10 Comments

Simran Bhagat

01-Apr-2022 08:59 PM

Nice

Reply

Seyad faizul murad

01-Apr-2022 11:33 AM

Bahut khoob

Reply

عمدہ

Reply