غزل تحریری مقابلہ
کچھ بھی ہو جائے پر ایسا نہیں ہونے دیتے
عشق کو ہم کبھی رسوا نہیں ہونے دیتے
تم تو گلشن کو بھی کر دیتے ہو ویران! میاں
ہم تو صحرا کو بھی صحرا نہیں ہونے دیتے
زخم یہ گہرا نہیں تھا کہ جو بھرتا ہی نہیں
یار ہم خود اسے اچھا نہیں ہونے دیتے
ان غموں کو ہے کچھ اس طرح عقیدت مجھسے
مجھکو اے دوست یہ تنہا نہیں ہونے دیتے
ہم کماتے ہیں مگر ہاۓ ضرورت کے پہاڑ
جمع کوئی بھی اثاثہ نہیں ہونے دیتے
بیچ دیں اپنی غزل فن کی تجارت کر لیں
ہم ادب کا یوں تماشا نہیں ہونے دیتے
ہم تھے پردیس سدا ورنہ جگر کے ٹکڑے
جیسا تو ہے تجھے ویسا نہیں ہونے دیتے
ایک تو خود ہی سدھرنے سے گریزاں ہوں میں
اور کچھ لوگ بھی ایسا نہیں ہونے دیتے
قتل ہو جاتے ہیں ہم شوق سے لیکن عابد
اپنے ایمان کا سودا نہیں ہونے دیتے
سید تہزیب عابد
َ
Simran Bhagat
01-Apr-2022 08:59 PM
Nice
Reply
Seyad faizul murad
01-Apr-2022 11:33 AM
Bahut khoob
Reply
ابو نعمان اصلاحی
01-Apr-2022 09:45 AM
عمدہ
Reply